Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر22

ساوی شایان سے چیک لیے روم سے باہر آئی تو درید وہیں کھڑا تھا وہ اُسے نظر انداز کرتی جانے لگی کہ وہ بھی اُس کے پیچھے چلتا بات کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ "میری گُڑیا پلیز ایک بار تو بات سُن لو تمہیں پتہ ہے چچی ماں نے کہا ہے کہ کل ہی شادی ہو گی ہماری پھر سب ٹھیک ہو جائے گا میں تمہیں اپنا نام دوں گا اپنی عزت بناوں گا پلیز ایک بار سوچو اِس بارے میں کیا تُمہیں مُجھ پہ یقین نہیں ہے؟" وہ اُس کے قدموں سے قدم ملاتا چل رہا تھا۔ وقت،اعتبار اور عزت ایک ایسا پرندہ ھے جو ایک دفعہ اڑ جا ئے تو واپس نہیں آتا نہیں ہے مجھے آپ پر یقین اور نہیں سُننی آپ کی کوئی بات اور آپ کو مُجھ پہ احسان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لے آئیں اپنے لیے کوئی پاک بیوی " اُس کی تلخ بات سُن کے وہ تڑپ اُٹھا۔ "ایسا مت کہو تُم پاک ہو پلیز مجھے میری ہی نظروں میں مت گِراو" وہ التجائیہ ہوا۔ "میں آپ کو آپ کی نظروں سے کیسے گِرا سکتی ہوں آپ تو پہلے ہی گِرے ہوئے ہیں" اُس نے طنز کے تیر برسائے۔ "مم میں اُس دن ہوش میں نہیں تھا مجھے نہیں پتہ تھا کہ تُم وہاں ہو سکتی ہو۔ تُم کیوں آئی تھی وہاں اتنی رات کو؟"۔ وہ بے بس ہوا۔ "آپ کی فکر میں آئی تھی وہاں کہ کہیں کُچھ ہو نہ گیا ہو آپ کو۔ مُجھے پتہ کہ وہاں جا کے میں خود محفوظ نہیں رہوں گی تو مر کر بھی نہ جاتی" اُس کا لہجہ زہر خند تھا جس کا اثر درید کے دِل پر ہو رہا تھا۔ "معاف کردو جو میں نے کیا صرف ایک بار۔ اگر معاف نہیں کرنا تو سزا دے لو " وہ اُس کے بے تاثر چہرے پہ نظریں جمائے بولا جو اپنے کمرے کے باہر رُک چکی تھی۔ "سزا؟ ہاں سزا تو میں آپ کو دوں گی۔ کل شادی ہے نا ہماری ؟ کل ہی آپ کو سزا دوں گی انتظار کریے گا" وہ سامنے دیوار کو گھورتی اُس کو جواب دیتی ُپرسرار سا مُسکرائی اور اندر داخل ہو کے دروازہ بند کر دیا۔ درید کُچھ دیر کھڑا دروازے کو گھورتا رہا اور پھر ہارے قدموں سے نیچے چل دیا۔ اُسے احساس تھا کہ اُس نے غلط کیا ہے اور اب وہ سب ٹھیک بھی کرنا چاہتا تھا مگر ساوی کے انداز اُسے پریشانی میں ڈال رہے تھے۔ تھکے تھکے انداز میں وہ روم کا دروازہ کھول کے اندر داخل ہوا اور بستر پر ڈھے گیا


نیا دن نکل آیا تھا کھڑکیوں سے روشنی چھن کر اندر آرہی تھی روشنی آنکھوں میں پڑتے ہی افرحہ کی آنکھیں کُھلیں کُچھ دیر وہ غائب دماغی سے لیٹی رہی اور پھر جب ذہن بیدار ہوا تو پچھلی رات کے مناظر اُس کی آنکھوں کے سامنے سے گُزرنے لگے۔ شایان نے نا صرف اُسے اپنی محبت کا مان بخشا تھا بلکہ اُسے اپنے ہر انداز سے عزت احترام دیا تھا جسے پاکر وہ خود کو بہت خوش نصیب سمجھ رہی تھی۔ ایک لڑکی کو محبت سے زیادہ عزت چاہیے ہوتی ہے جب بات عزت و احترام کی آجائے تو محبت کہیں بہت پیچھے رہ جاتی ہے عورت محبت کے بغیر تو گُزارا کر لیتی ہے سمجھوتہ کر کے مگر عزت اُس کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ اور افرحہ کو یقین تھا کہ محبت کے ساتھ اُسے عزت اور احترام۔بھی ملے گا۔ اُس نے اُٹھنے کی کوشش کی تو کسمسا کر رہ گئی شایان اُسے کسی پِلّو کی طرح خود میں جکڑے سو رہا تھا۔ اُس نے شایان کے بازو ہٹانے کی کوشش کی مگر بے سود۔ تھک ہار کر وہ اُس کا بازو جھنجھوڑنے لگی۔ "شان شان اُٹھ جائیں نو بج گئے ہیں " اُس نے گھڑی میں ٹائم دیکھتے کہا۔ شایان نے قریب ہو کے اُس کے بالوں میں منہ چھپاتے اُس کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھا اور اُنہیں بند کرنے لگا۔ " سو جاؤ ابھی " سب کو پتہ ہے دُلہا دُلہن لیٹ اُٹھتے ہیں" وہ اُس کے کان میں بڑبڑا کر پھر سو گیا۔ "نہیں مجھے اُٹھنا ہے سب کیا سوچیں گے پلیز آپ سوجائیں بے شک" وہ اُس کے حصار میں پڑی بے بسی سے بولی۔ شایان نے آنکھیں کھول کے سر اونچا کیا اور خوابیدہ نظروں سے اُسے دیکھتا اُس پہ جُھک گیا. وہ اُس کی صبح صبح شدتوں سے گھبراتی اُسے پیچھے ہٹانے لگی۔ شان پلیز !! وہ منمنائی تو وہ اُس کی جان بخشتا پیچھے ہٹ گیا۔ اور کروٹ بدل کر پھر سو گیا۔ وہ خدا کا شُکر ادا کرتی جلدی سے کپڑے نکالتی باتھ روم گُھس گئی اور پندرہ منٹ بعد فریش ہو کر آئینے کے سامنے کھڑی ہوتی تیار ہونے لگی۔ اُس نے پرپل کلر کا نفیس سا ڈریس پہنا تھا جس پہ کڑھائی کا کام ہوا تھا اور اُس پہ وہ رنگ خوب کِھل رہا تھا۔ آئینے میں ایک نظر خود کو دیکھتی وہ شایان کے کپڑے نکال کے باتھ روم میں لٹکا آئی اور ایک بار پھر اُس کے سرہانے کھڑے ہو کے اُسے اُٹھانے لگی۔ ْپندرہ منٹ کی تگ و دو کے بعد وہ منہ بسورتا اٹھا اور فریش ہونے چلا گیا۔ دس منٹ بعد وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑا بال بنا رہا تھا اُس نے وائٹ کلر کا شلوار سوٹ پہنا تھا جس میں وہ جچ رہا تھا۔ افرحہ اُس کی واسکٹ اُٹھائے اُس کے پاس آئی تو اُس نے بازو پھیلائے اور افرحہ نے اُسے واسکٹ پہنائی۔ وہ واپس بیڈ پہ بیٹھنے لگی کہ شایان نے اُس کی کلائی پکڑتے اپنے آگے ڈریسنگ کے سامنے کھڑا کیا جہاں اُن دونوں کا عکس صاف نظر آرہا تھا۔ شایان نے اُس کے کندھے پہ سر رکھا اور اُس کے دائیں گال سے اپنا بائیں گال ملا کے آئینے میں دیکھنے لگا۔ تم خوش ہو نا؟ افرحہ کے چہرے پہ گُھلتی سُرخی دیکھ کر وہ پوچھنے لگا۔ " جج جی" اُس کی تپش دیتی نگاہوں سے وہ پزل ہوئی۔ " اتنا مت شرماو ورنہ میرا دِل بےایمانی پہ اُتر آیا تو تمہارے لیے ہی مُشکل ہو جائے گی" وہ اُ پہ نظریں ٹکاتا شرارت سے بولا ۔ " شان " اُس نے نام پہ زور دیتنے اِس طرح کہا کہ اُس کے چہرے پہ مسکراہٹ کھل گئی ۔ "کتنا مزے کا بولتی ہو تُم "شااان " وہ اُس کی نقل کرتا بولا ۔ آپ نا۔۔۔۔۔۔ ابھی وہ اور کُچھ بولتی کہ دروازے پر دستک ہوئی اور وہ جھٹ سے اُس سے علیحدہ ہوئی۔ اُس نے جا کر دروازہ کھولا تو سامنے نادیہ بیگم کھڑی تھیں۔ " اُٹھ گئی بیٹا" وہ اُس کے سر پر پیار دیتی اندر آئیں " جی ماما " وہ اُنہیں اندر آنے کا راستہ دیتی ایک طرف ہو گئی۔ "شایان بیٹا دو بجے ولیمہ رکھا گیا ہے تو ابھی تو جا کے ناشتہ کرو اِس کے بعد افرحہ ساوی کے ساتھ پالر چلی جائے گی تو تُم نے جو کام نپٹانا ہے نپٹا لو " وہ اُسے ہدایت کرتیں بولیں۔ "جی ماما " وہ فرمانبرداری سے سر ہلا گیا ۔ " چلو آجاو پھر" اُن کے کہنے پہ وہ اُن کے پیچھے ہی چل دیئے کہ تیار تو وہ تھے ہی۔


ناشتے کے بعد گیارہ کے قریب افرحہ ساوی کے ساتھ پالر کے لیے نکل گئی جبکہ شایان درید کے ساتھ لان میں سیٹنگ کروا رہا تھا کہ ولیمہ گھر میں ہی رکھا گیا تھا۔ افرحہ کو ساوی کے ہاتھ میں چھوٹا سفری بیگ دیکھ کے حیرانی ہوئی۔ اُس کے پوچھنے پہ ساوی نے بتایا کہ اُس بیگ میں ساوی کے کپڑے ہیں وہ بھی پالر سے ہی تیار ہو گی تو افرحہ خاموش ہو گئی۔ پالر والی افرحہ کو تیار کر رہی تھی جبکہ ساوی اُس کے پاس ہی رکھے صوفے پہ بیٹھی بے چین دکھائی دے رہی تھی۔ اُس نے بلیک کلر کا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ کُچھ دیر بعد وہ اُٹھ کر باہر چلی گئی اور تقریباً دس منٹ بعد واپس آئی۔ "افی میں گھر جا رہی ہوں میری جیولری گھر ہی رہ گئی ہے تو میں کُچھ دیر میں آجاتی ہوں واپس" اُس نے افرحہ کی طرف دیکھتے کہا۔ "تیار تو ہو لو جیولری گھر جا کے سیٹ کر لینا " افرحہ نے حیرانی سے کہا ۔ "نن نہیں نا خود سے اچھی طرح سیٹ نہیں ہو گی میں بس ابھی آئی۔" وہ اپنی بات کہتی بغیر افرحہ کی سُنے باہر نکل گئی ۔ بیگ اُس کا باہر ویٹنگ روم میں پڑا تھا۔ افرحہ تیار ہو چکی تھی مگر ساوی واپس نہ آئی ۔ اُس نے ساوی کو فون کیا جو جلدی اُٹھا لیا گیا۔ "کہاں ہو تم؟؟ میں یہاں تمہارا ویٹ کر رہی ہوں" افرحہ نے خفگی سے کہا۔ "یار ماما نے مجھے کام میں لگا دیا ہے میں خود ہی گھر پہ تیار ہو جاوں گی۔ تم بھی ڈرائیور کے ساتھ گھر آجاو" ساوی نے جواب دیا۔ "اچھا ٹھیک ہے آرہی ہوں " افرحہ کہتی کال کاٹ گئی اور پالر والی کو پیمنٹ کرتی باہر آکے گاڑی میں بیٹھی اور ڈرائیور کو گھر جانے کو کہا جو اثبات میں سر ہلاتا گاڑی سٹارٹ کر گیا۔


ساری تیاری مکمل تھی لان کو بہت خوبصورتی سے سجایا تھا کام تو سارا ملازم کر رہے تھے مگر ہدایات ساری درید اور شایان دے رہے تھے۔ لان کو بلکل ریڈی دیکھ کر وہ اپنے اپنے روم میں تیار ہونے چلے گئے تھے۔ شایان تیار ہو کے جلد ہی باہر آگیا تھا اور دلہا کی مخصوص نشست پر بیٹھ گیا تھا افرحہ کو باہر لا کے شایان کے ساتھ بٹھایا گیا۔ سلور کلر کا لہنگا پہنے سلور کلر کی جیولری کے ساتھ شایان کی قربت سے مہکتی افرحہ کی آج چھب ہی نرالی تھی جبکہ شایان نے گریئش بلیک کلر کا فور پیس پہن رکھا تھا جس میں اُس کی ڈیشنگ پرسنالٹی اور بھی چارمنگ لگ رہی تھی وہ ایک دوسرے کی سنگت میں آج واقعی چاند سورج کی جوڑی لگ رہے تھے۔ سب لوگ باری باری آکے اُن کو مبارکباد دے رہے تھے جو اب ایک ساتھ کھڑے وصول کر رہے تھے۔ افرحہ کا چہرہ . شایان کی محبت کا غماز تھا اُس کے چہرے کے ہر رنگ سے دیکھنے والے کو اُس کی خوشی کا احساس ہو رہا تھا۔ درید بھی تیار ہو گیا تھا۔ اُس نے بلیک کلر کی شرٹ اور بلیک ہی پینٹ پہنی تھی مگر اُس کا کوٹ گرے کلر کا تھا۔ اُس کی نظریں ساوی کو ڈھونڈ رہی تھیں مگر وہ اُسے کہیں نظر نہ آئیں۔ " درید بیٹا مجھے تُم سے کُچھ بات کرنی ہے " نادیہ بیگم نے درید کو اکیلا پا کر کہا۔ "چچی ماں بعد میں بات کرتے ہیں میں آرام سے آپ کی بات سُنوں گا پہلے میں ساوی کو دیکھ آوں پتہ نہیں کدھر ہے وہ نظر نہیں آرہی " وہ فکر مندی سے بولا۔ "شاید تیار ہو رہی ہو جاو تُم دیکھ آو پھر بات کرتے ہیں" وہ اُس کا کندھا تھپتھپاتیں ہوئیں بولیں اور وہ ہاں میں سر ہلاتا اندر چلا گیا ۔ سب لوگ باہر مصروف تھے کسی کا دھیان اندر کی طرف نہیں تھا مراد صاحب مہمانوں سے مل رہے تھے جبکہ نادیہ بیگم بھی اپنی کُچھ دوستوں کے پاس جا کھڑی ہوئیں۔ شایان اور افرحہ کےولیمے کے فوٹو شوٹ کے بعد کھانا سرو کرنا شروع کر دیا گیا ۔ "شایان نے ساوی کے بارے میں پوچھا تو نادیہ بیگم اُسے بلانے اندر چلی گئیں"


درید ساوی کے کمرے میں داخل ہوا تو سارا کمرہ سائیں سائیں کر رہا تھا کمرہ اندھرے سے پُر تھا۔ اُس نے آگے بڑھ کر لائٹ جلائی۔ مگر کمرے میں کوئی نہیں تھا وہ تیزی سے باتھ روم کی جانب گیا مگر وہاں بھی کوئی نہیں تھا پھر وہ اوپر نیچے ہر جگہ دیکھ چکا مگر وہ کہیں نہیں تھی۔ درید کا دل انجانے خدشات سے دھڑکا اور وہ جلدی سے ساوی کی الماری کھول کے اندر کا جائزہ لینے لگا۔ سارا سامان موجود تھا کُچھ بھی کم نہیں تھا ہر چیز اپنی جگہ پر تھا مگر پھر بھی کُچھ تو تھا جو غلط تھا۔ " سزا کے لیے تیار رہیے گا " ساوی کی کل کی بات اُسے یاد آئی تو وہ اُسے ڈھونڈنے کمرے سے باہر جانے لگا کہ اُس کی نظر ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی جہاں ایک سفید کاغذ پڑا تھا۔ آگے بڑھ کر اُس نے کانپتے ہاتھوں سے وہ کاغذ تھاما اور پکڑ کے پڑھنا شروع کیا۔ میرے سو کالڈ ہزبینڈ ! اوہ اتنا حیران مت ہوں آپ میرے ہزبینڈ ہی ہیں یقین نہیں آتا تو ماما سے پوچھ لیں۔ آپ نے جو میرے ساتھ کیا اُس کے لیے میں آپ کو کبھی معاف نہیں کر سکتی۔ جانتی ہوں غلطی میری بھی تھی مجھے آدھی رات کو باہر نہیں جانا چاہیے تھا مگر میرا دل آپ کو کبھی معاف نہیں کر سکتا۔ آپ نے کل کہا تھا نا کہ آپ سزا بھگتنے کے لیے تیار ہیں۔ تو آپ کی سزا یہ ہے کہ میں آپ کو چھوڑ کر جا رہی ہوں ہمیشہ کے لیے اور اُمید کرتی ہوں کہ کبھی واپس نہ آوں۔ اور آپ میری شکل دیکھنے کے لیے ترستے رہیں۔ دنیا بہت بڑی ہے کہیں نہ کہیں تو جگہ مل ہی جائے گی مجھے۔ جانتی ہوں ماما بابا مجھے ہی غلط سمجھیں گے مگر آپ سے شادی کرنے سے بہتر ہے کہ میں کہیں ایسی جگہ چلی جاوں جہاں مجھے اور میرے ماضی کو کوئی نہ جانتا ہو۔۔ مجھے ڈھونڈنے کی کوشش مت کیجیے گا میں کہیں نہیں ملوں گی۔۔۔۔۔۔ خدا حافظ۔ خط پڑھ کر اُس کے اوسان خطا ہوگئے اور خط چھوٹ کر نیچے ذمین پر گر گیا اُسے یقین نہی۔ آرہا تھا کہ وہ اُسے ایسی سزا بھی دے سکتی ہے۔ اُس نے تو ایسا خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ وہ مرد ذمین پہ بیٹھا دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا کبھی اپنے بال نوچتا اور کبھی اپنا سینا مسلتا۔ ایک درد تھا جو اُسے اپنے دل میں محسوس ہو رہا تھا۔ اچانک دروازہ کھلا اور نادیہ بیگم اندر داخل ہوئیں اور اُسے ایسے روتے دیکھ کر وہ پریشان ہوتیں اُس کی طرف بڑھیں۔ درید بیٹا کیا ہوا ہے کیوں رو رہے ہو ایسے اور ساوی کہاں ہے؟ وہ فکر مندی سے بولیں کہ اُن کی نظر خط پہ پڑی۔ اُلجھتے ہوئے اُنہوں نے خط اُٹھایا اور پڑھنا شروع کیا جیسے جیسے وہ خط پڑھتی گئیں اُن کے چہرے کا رنگ زرد پڑتا گیا۔ سس ساوی کہاں ہے؟ درید مم میری بچی کہاں ہے؟ کہاں چلی گئی وہ ؟ کیا کیا ہے تُم نے جو وہ ایسے چلی گئی؟ وہ روتے ہوئے استفسار کرنے لگیں۔ " چچی ماں وہ وہ مم مجھے چچچھوڑ کر چلی گئی اُس اُس نے مجھے سزا دے دی اتنی بڑی سزا مم میں مر جاوں گا اُس کے بغیر پپ پلیز اُسے کہیں واپس آجائے یہ سزا مت دے مجھے" وہ روتا اُن کے سامنے گِڑگڑانے لگا۔ کک کیا کیا ہے تُم نے جج جو تم۔سس سزا کی بات کر رہے ہو؟ وہ اپنے دل میں آتے خیال کی شدت سے نفی کرتیں لرزتے دل سے پوچھنے لگیں۔ "ووہ اُس دن مم مجھے لگا کک کہ اُس کی شادی اا اشعر سے طط طے ہو گئی ہے تت تو میں غغ غصے سے اپنے فف فلیٹ چلا گیا اور وہاں شش شراب پی لی۔ مم مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہا۔ سس ساوی آجائے گی اور نن نشے میں مم میں نے اُس کک کے ساتھ بد تمیزی کک کی اور اُس کی عزت چچ چھین لی" وہ روتا اٹک اٹک کر بتاتا شرمندگی سے نظریں جھکا گیا اور نادیہ بیگم اُس کے منہ سے اتنا بڑا انکشاف سُن کر ساکت رہ گئیں اِس کا مطلب ساوی نے کوئی گُناہ نہیں کیا اُس کی کوئی غلطی نہیں تھی اور میں نے اُسی کو غلط ٹھہرا دیا۔ سوچتے ہی اُن کے دل میں چھبن سی ہوئیں۔ یہ کیا کر دیا تم نے درید؟ وو وہ بیوی تھی تمہاری۔ تمہاری عزت جس کی حفاظت کا ذمہ تمہارے سر تھا یہ کیا کر دیا تم نے ؟ وہ روتے ہوئے اٹھیں اور باہر نکل گئیں۔ جبکہ درید اُن کی بات سُن کر بے جان بُت کی طرح بیٹھا تھا پچھتاوے کے ناگ اُسے ڈس رہے تھے۔ پانچ منٹ بعد نادیہ بیگم واپس آئیں تو اُن کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا جو کافی پُرانا تھا۔ انہوں نے وہ کاغذ درید کی طرف بڑھا دیا جسے اُس نے بے جان ہاتھوں سے تھام لیا اور پڑھنا شروع کیا جس میں اُس کے نکاح کی تفصیل موجود تھی۔ درید اور اساورہ کے ناموں کے بعد اُن کے ولیوں کے نام تھے جن کے نیچے ولیوں کے دستخط بھی تھے یعنی مراد صاحب اور فریاد صاحب کے دستخط۔ یہ کیا کر دیا تھا اُس نے؟ اُسے اپنی آنکھوں پہ یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔۔ ہاتھوں میں نکاح نامہ پکڑے وہ بے یقین سا تھا۔۔۔۔ وہ اسکے نکاح میں تھی اُس کا لباس تھی اور اُس نے اپنے ہی لباس کو تار تار کر دیا تھا۔۔۔۔ اپنے ہاتھوں میں نکاح نامہ پکڑے وہ ہارا ہوا بیٹھا تھا کہ کاش وہ وہ سب کچھ نہ کرتا تو آج وہ اُس کے سامنے اُس کے پاس ہوتی۔۔۔۔۔ کاش وہ گزرے لمحے واپس لا سکتا۔۔۔ مگر یہ کاش اب کاش ہی رہنے تھے۔۔۔۔۔۔ اُس کی ایک نہیں سنی تھی اُس نے صرف اپنی من مانی کی اور آج وہ شکستہ سا بیٹھا تھا۔۔۔۔ آنسو اُس کی آنکھوں سے نکل کر گالوں پہ بہہ رہے تھے جن پہ آج اُس کا کوئی اختیار نہ تھا۔۔۔۔۔۔اب یہ پچھتاوے اُس کا مقدر تھے اور کون جانے کہ قسمت کب اُسے اِن پچھتاوں سے نکالے۔۔۔۔۔۔۔ "تم نے اچھا نہیں کیا اُسے تمہارے نکاح میں دیا تھا کہ تم اُس کی حفاظت کرو گے اُسے مان دو گے مگر تم نے کیا کیا اپنی ہی عزت کو ذلیل کر دیا اُس سے اُس کی عزت چھین لی ایک دفعہ آکر مجھ سے تو پوچھتے کہ اُس کی منگنی کس سے ہونے جا رہی ہے۔ مگر تم نے اُسے یہ۔گھر چھوڑ جانے پہ مجبور کر دیا پتہ نہیں کہاں ہو گی کس حال میں ہو گی وہ" وہ رو رہیں تھیں اور درید پاس چُپ بیٹھا تھا اُس کے پاس بولنے کے لیے تھا ہی کیا اچانک کھٹکے کی آواز پر انہوں نے چونک کر سر اُٹھایا کہ مراد صاحب کو دروازے پہ دیکھ کر وہ ششدر رہ گئیں جن کے چہرے پہ بے یقینی تھی اور آنکھوں میں ٹوٹے اعتماد کی کرچیاں۔ اُن کا دائیاں ہاتھ اُن کے دل کے مقام۔ہر تھا ابھی وہ اُٹھ کے اُن کے پاس جاتیں کہ وہ دھڑام سے گر کر ذمین بوس ہو گئے۔ درید یکدم۔ہوش میں آیا اور چیختا ہوا اُن کی طرف لپکا جو شاید آخری سانسیں لے رہے تھے ۔ وہ انہیں اپنے مضبوط بازووں میں اُٹھاتا باہر کی طرف دوڑا۔

   0
0 Comments